Friday 31 January 2014

تشنگی


گھر محبتوں کا ایک گھونسلہ ۔۔۔۔تنکا تنکا بکھری چاہتوں کاایک مسکن ۔۔۔ لمحہ لمحہ روح میں اترتے سکون کا احساس۔۔ وقت کے ہر پل سے جڑی اپنائیت ، جس کی کوئی زبان اور اظہار کو کوئی طریقہ نہیں۔۔ طمانیت اور اپنائیت کی ایک لمبی داستان۔۔۔ جس کے صفحہ قرطاس پر بکھرے خوشی اور غم موتیوں کی طرح چمکتے ہیں ۔ لمحہ لمحہ جڑی اس زنجیر کی پہلی اور آخری کڑی ۔۔۔۔۔ماں۔۔۔۔۔۔۔جو اس سلسلے ، اس تعلق کو جوڑے رکھتی ہے۔ اور گھر کے افراد تسبیح کے دانوں کی طرح پروئے رہتے ہیں۔۔۔
ہماری محبتوں کی یہ داستاں ادھوری رہ گئی ، ٹوٹ گئی، وہ زنجیر جس نے ہمارے گھر کے افراد کو کڑیوں کی طرح ملا رکھا تھا۔۔ اجڑ گیا وہ گھونسلہ ، جس کا تنکا تنکا "مور خان" نے بٹی محنت ، چاہت اور اپنائیت سے جوڑا تھا اور اس  گھونسلے میں منتظر آج بھی وہ بچے " چوں چوں" کرتے اس لمحے کے انتظار میں ہیں ، جب ان کی ماں اپنی چونچ میں " زندگی" بھر کے ان کے منہ میں انڈیل دے۔۔۔ لیکن اب باقی زندگی شاید اسی انتظار میں کتے گی۔۔۔
مجھے لگتا ہے ، جیسے میں ایک ڈراونا خواب دیکھ رہا ہوں ،ایک ایسا خواب جس کے اختتام پر میں اٹھ بیٹھوں گا ۔۔اور پھر مجھے کچھ یاد نہیں آئے گا ۔ تب میں سر جھٹک کر اعوز باللہ کا ورد کروں گا ۔۔۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے ، کڑوی حقیقت۔۔ مجھے لگتا ہے "وہ" اس وقت بھی مِرے پاس موجود ہے ، میرے آس پاس، وہی اپنائیت، وہی چاہت ، وہی پرسکون لمحہ ، وہی مسکراہٹ ، وہی محبت ، وہی لمس ،سانسوں کی وہی گرمی ، شفقت کی وہی نگاہ ۔۔۔میں محسوس کر سکتا ہوں۔۔۔۔ وہی مری "ماں۔۔"
دل بھی کیا عجیب شے ہے، خوہش بھی کرتا ہے امنگیں بھی جگاتا ہے اور ارمان بھِی۔۔ پھر روٹھ بھی جاتا ہے ۔ اور پھر "ان" کا دل تو اور بھی عجیب تھا ، جو سب کے لئے یکساں دھڑکتا تھا۔ جس میں سب کے لئے محبتیں تھیں، سب کے لئے نیک خواہشیں اور امنگیں تھیں، جو سب کے لئے میٹھے جذبات سے پر تھا، وہ دل تھا ، جب تک دھڑکتا رہا۔۔محبتیں بٹتی رہیں، چاہتیں پرورش پاتی رہیں، اور جب اس نے دھڑکنا بند کردیا تو سب کچھ ختم سا ہو گیا۔ ہم لوگ تہی دامن رہ گئے ، کچھ بھی پاس نہ رہا۔۔۔وہ آواز جو ہمیشہ کے لئے چپ ہو گئی ، جو ہم سب کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر " جیو، ۔۔جار" کی صورت ہر بار بلند ہوتی ، حوصلہ بڑھاتی۔۔۔وہ لب یمیشہ کے لئے خاموش ہوگئے جن پر ہر وقت ہمارے تذکرے ہوتےتھے ۔ کبھی تعریف کی صورت میں تو کبھی دعا کی صورت۔۔ وہ جادو بھری جپھی ہمیشہ کے لئے کھو گئی ، جوڈی آئی کے جانے اور آنے کی صورت میں ہمیشہ مجھے ملا کرتی۔۔مری "مور خان" سے ۔۔
The place where Mor Khan is sleeping eternal sleep. May Allah shower His countless blessings upon her. Ameen
مجھے میری زندگی کا وہ ایک ایک لمحہ یاد ہے ، جب میں نے ان کی ضرورت محسوس کی ، تو انہوں نے مجھے اپنی آغوش میں لیا ، وہ آغوش جو میری جنت تھی ۔ اور جو تئییس سال کا ہونے کے باوجود " میری آغوش" تھی۔ جہاں پر سر رکھ کر میں محسوس کرتا ، جیسے دنیا کی سب سے پر سکون جگہ یہی ہو۔ تب میں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کرتا ۔ ایک ایسا انسان جس کے پاس سب کچھ ہو ، سب کچھ۔۔ جب جب میں نے زندگی کےکٹھن سفر میں کوئی دشواری محسوس کی ، جس جس لمحہ زندگی میں سخت امتحان کا سامنا ہوا، میں نے "ان" کو صدا دی، اور مجھے یقین ہوتا کہ کامیابی ضرور میرا مقدر بنے گی اور پھر ہمیشہ میں سرخرو ہوتا ۔ میں نے ان برکتوں کو محسوس کیا ، ان کے دم سے ان کی دعاوں کی بدولت میں نے ناممکنات کو ممکن ہوتے دیکھا۔۔ ان کے ہونٹ ہمیشہ چلتے رہے ہمارے لئے ۔۔۔گھر بھرکے افراد کے لئے ۔۔ شاید انہوں نے ساری عمر اپنے لئے کچھ نہیں مانگا۔۔۔اور ہمارے لئے لمبی عمر کی دعائیں مانگنے والی کی اپنی زندگی کی لکیر مختصر رہ گئی۔۔۔

مجھے سترہ جنوری کی وہ صبح کبھی نہیں بھولے گی ، جب ایک طرف موذن نے "اللہ اکبر " کی صدا بلند کی ، سلامتی کا پیغام دیا اور دوسری طرف ہمارے لئے دعاگو رہنے والے لب ہمیشہ کے لئے چپ اوڑھ کر سو گئے ۔۔وہ زنجیر ٹوٹ گئی جس نے ہم سب کو ایک لری میں پرو رکھا تھا۔ ڈوب گئی وہ صدا جو ہمارے لئے باعثِ اطمینانِ قلب تھی ۔ ٹوٹ گیا وہ سائباں ، جس نے دنیا کے سرد وگرم سےہمیں پناہ دے رکھی تھی۔ الٹ گئی وہ کشتی ، جس کا ساحل ابھی دور تھا ۔ اور ادھوری رہ گئی محبتوں کی وہ داستاں، جس میں ہم نے وفائیں کرنا بھی تھیں اور نبھانی بھی۔۔ اور پھر پہلی بار ایسا بھی ہوا، کہ میں ڈی آئی کے سے اپنے گھر لوٹا پوں اور میری ماں نے میرا ماتھا چوم کر مرا استقبال نہیں کیا۔ میں نے تو بس سفید کپڑوں میں لپٹا ہوا ایک وجود دیکھا، ایک بے حس وجود۔۔ لیکن "ان: کے چہرے پر تب بھی وہی سکون اور طمانیت تھی جو انہی کا خاصہ تھی۔۔اس دن مجھے کسی نے جادو کی پھی نہیں دی۔ البتہ میں نے ضرور چومنے کی کوشش کی ۔۔ سوچنے ، سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو چکی تھی۔ اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ کہ جیسے ایک قدم بھی نہیں اتھا پاون گا ۔ کسی بے جان اور بے حس لاشے کی طرح۔۔

مور خان بالکل ایک چھوٹے بچے کی طرح تھیں۔ معصوم اور پاک ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو مائنڈ نہ کرنے والی ، اور پھر چھوٹی چھوٹی بات سے ہی خوش اور راضی ہو جانے والی ۔۔۔۔انتہائی حساس اور خوددار، بالکل چھوٹے بچوں کی طرح ۔۔ روٹھ جاتیں تو کھانا تک نہ کھاتیں ، جب تک کہ انہیں منا نہ لیا جاتا۔ رحمدل اتنی تھیں کہ کئی بار ہم نے انہیں دوسروں کے دکھ پر پریشان اور غمزدہ دیکھا۔ کوئی دردناک واقعہ ہو جاتا، مرے دوستوں میں یا کہیں بھی ، تو ان کی آنکھیں بھیگ جایا کرتیں ۔۔وہ حتی الوسع مسئلوں کو حل کرنے کی کوشش کرتیں ، ان کا دل بہت وسیع تھا ، جس میں انہوں نے دوسروں کے درد بھی چھپا رکھے تھے ۔ اسی وجہ سے انہیں انجائنا، شوگر اور فشارِ خون جیسی بیماریوں کا سامنا تھا۔ اور اب شاید ان کے دل میں جگہ ہی نہیں بچی تھی، تبھی تو وہ دل یوں روٹھ گیا ۔۔۔ تھوڑے کو بہت سمجھنے والی مری " مورخان"، مری ماں، کو اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دیا ، سب کچھ ، ماسوائے ایک لمبی زندگی کے ، جو صرف بیالیس پر ہی ختم ہو گئی۔،۔۔صرف بیالیس سال۔۔۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، میں انسان کو اتنی تکلیف دیتا ہوں ، جتنا اسے سہنے کی ہمت ہوتی ہے ۔۔اور بے شک ایسا ہی ہے ۔۔ نجم اور اظہر میرے چھے سال اور چار سالہ بھائی ۔۔اللہ تعالیٰ نے ان کو استقامت دی ہے ۔ اظہر جو ماں کے بگیر دیوانہ وار ادھر ادھر بھاگتا تھا ، روتا تھا، جسے چپ کرانا مشکل تھا ۔ اس کی معصوم سوچ میں یہ بات ہے کہ اس کی ماں اللہ کو پیاری ہو گئی ۔ کبھی کبھی میرے دو بھائیوں کے آپس کی باتیں مجھے بے خود کر دیتیں ۔ نجم بابا سے کہتا ہے ، " یہ سب کیوں رو رہے ہیں" ہم سب نے بھی تو مر ہی جانا ہے ۔ اور اظہر پوچھتا ہے ، نجم ، امی کو کہاں لے گئے ہیں۔۔؟ " نجم کہتا ہے "تو کیا یہیں دفن کرتے؟" قبرستان تو لے ہی جانا تھا ۔ اللہ نے ہمیں بھی صبر سے ہی دیا ۔۔ اظہر جو امی کے ساتھ سوتا تھا اور جب امی اٹھ جایا کرتیں تو وہ بھی جاگ جاتا تھا ، اب اسکی عادتیں بدل رہی ہیں۔

کتنی پرسکون زندگی تھی ، کیا حالات تھے ، تحفظ کا ایک احساس تھا ، کسی کی ماں کی دعاوں کامان تھا۔ ہر کام میں ہاتھ ڈالا ، یہ سوچ کر کہ پیچھے ہے کوئی ، جو جب بھی ہاتھ اٹھاتی ہے ، ہماری سلامتی اور بقاء کا کا سوال کرتی ہے ۔ اور اب ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے تہی دست سا پو گیا ہوں۔ کبھی کبھی تو یوں بھی لگتا ہے کہ جیسے جینے کا مقصد ہی ختم ہو گیا ہو۔ ہم لوگ کیاکچھ نہیں کرتے۔۔ اس دنیا میں رہنے کے لئے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں سدا یہیں کا ہی ہو رہنا ہے ، ہمارے دل میں ہزاروں خواہشیں اور سینکڑوں ارمان جنم لیتے ہیں اور ہم ہر رات ایک نیا خواب دیکھتے ہیں ۔پھر اس کی تکمیل کے لئے دن رات ایک کر دیتے ہیں ۔۔اور ہوں ساری زندگی گزار دیتے ہیں۔ اور پھر اچانک وہ لمحہ آجاتا ہے جو ہماری دنیاوی زندگی کا آخری اور اخروی زندگی کا پہلا لمحہ ہوتا ہے ۔۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔۔اور جانے کب وہ لمحہ ہمارے خوابوں اور ان کی تعبیر کے درمیان آ کھڑا ہو، اور ہمیں جانا پڑے۔۔۔۔ یہ حقیقت نہ ہوتی تو بھلا کیسے ۔۔"مور خان" مری ماں کی زندگی کی کہانی صرف بیالیس سال پر مشتمل ہوتی۔۔بھلا 
 Thanks to my friend Abdul Basit Saim for the re-writing of this article....کیسے۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment